کسان نے شیر کو انسان کی زبان میں بات کرتے دیکھا تو اور بھی ڈرگیا۔شیر نے کہا: ” اے بھائی! مجھ سے نہ ڈر۔ میں نے اللہ سے دعا مانگی ہے کہ مجھے بات کرنے کیلئے کچھ دیر کیلئے زبان دے دے۔“کسان کے اندر ہمت پیدا ہوئی۔
محمد شعیب‘ لاہور
پرانے زمانے میں شہر سےکوسوں دور ایک گاؤں میں سیلاب آگیا۔ سیلاب سب کچھ بہا کر لے گیا‘ اسی گاؤں میں ایک کسان اور سنار رہتے تھے دونوں کی آپس میں گہری دوستی تھی‘ کسان اور سنار نے فیصلہ کیا کہ گاؤں میں ہمارا کچھ بچا تو ہے نہیں چلو شہر چلتے ہیں اور وہاں جاکر کچھ مزدوری کرتے ہیں۔ راستے میں گھنا جنگل تھا اور شہر کی مسافت پندرہ دن سے زیادہ تھی اور ان کے پاس کوئی سواری بھی نہ تھی۔آخر دونوں نے ضرورت کا کچھ سامان ساتھ لیا اور شہر کی طرف چل پڑے۔چلتے چلتے آخر کھانے پینے کا سامان بھی ختم ہوگیا۔ سنار کو بخار نے آگھیرا اور وہ بے چارہ چلنے سے بھی معذور ہوگیا۔ آخر کسان نے اسے درختوں کی آڑ میں محفوظ جگہ پر لٹا دیااور خود گرتا پڑتا جنگلی پھل وغیرہ تلاش کرنے چل دیا۔ کچھ دور چلا تھا کہ راستے میں اسے ایک شیر ملا، جو درد کی تکلیف سے بے حال ہوئے جارہا تھا۔ شیر کو دیکھ کر کسان کو تھرتھری سی لگ گئی، مگر شیر پھر بھی نہ اٹھ سکا بلکہ کسان سے کہنے لگا: ”اے بھائی! میں تجھے کچھ نہ کہوں گا، تو میری مدد کردے، اللہ تیرا بھلا کرے گا۔“
کسان نے شیر کو انسان کی زبان میں بات کرتے دیکھا تو اور بھی ڈرگیا۔شیر نے کہا: ” اے بھائی! مجھ سے نہ ڈر۔ میں نے اللہ سے دعا مانگی ہے کہ مجھے بات کرنے کیلئے کچھ دیر کیلئے زبان دے دے۔“کسان کے اندر ہمت پیدا ہوئی۔ اس نے قریب جا کر پوچھا: ”اب بتا تیری کیا مدد کروں؟“”بھائی! میرے پچھلے پاؤں میں بہت بڑا کانٹا گھس گیا ہے۔ اس کی تکلیف سے مرا جاتا ہوں، تجھے خدا کا واسطہ یہ کانٹا نکال کر میری جان بچالے، ورنہ کوئی شکاری ادھر آگیا تو میری کمزوری سے فائدہ اٹھا کر مجھے قید کرلے گا۔“
کسان نے خدشہ ظاہر کیا: ”کانٹا تو نکال دوں گا مگر کیا بھروسہ کہ تو مجھے کھانہ جائے؟“شیر نے عاجزی سے کہا: ”وعدہ کرتا ہوں کہ میں تجھے ہر گز کوئی نقصان نہ پہنچاؤں گا، بھلا کوئی اپنے محسن کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔ ایسا تو تم انسانوں میں ہوتا ہے۔“کسان نے ہمت کی اور آگے بڑھ کر شیر کے پاؤں کے اندر تک گھسا ہوا کانٹا نکال دیا۔ زخم کو صاف کرکے اوپر رومال پھاڑ کر پٹی باندھ دی۔شیر نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا: ” اے نیک انسان! تیری اس نیکی کا میں کیا بدلہ دوں گا۔ آچل میرے ساتھ چل۔“کسان شیر کے ساتھ چل پڑا کسان نے شیر سے کہا: ”اے شیر بھائی! میرا ایک اور ساتھی بھی کچھ دور جنگل میں بیمار پڑا ہوا ہے اور کمزوری کی وجہ سے اس سے چلا بھی نہیں جارہا ہے۔ پہلے مجھے کچھ کھانے کیلئے جنگلی پھل وغیرہ کا درخت بتادے تو مہربانی ہوگی۔شیر نے کہا: ”اے نیک انسان! تیرا دوست بھی میرا دوست ہے۔ سن ابھی کچھ دنوں پہلے دو شکاری اس جنگل میں مجھے شکار کرنے آئے تھے۔ میں نے اور میری شیرنی نے موقع پا کر ان دونوں پر حملہ کر انہیں ہلاک کردیا تھا۔ ان کے ساتھ کھانے پینے کا سامان تھا۔ وہ محفوظ ہے۔ آپہلے ادھر چل اور وہ سامان تو اٹھا کر لے جا اور پھر میں تجھے ایک ایسی نایاب بوٹی کا پودا دکھاؤں گا چاہے کیسا ہی بیمار ہو اسکی پتیاں پیس کر مریض کو پلادیں۔ انشاء اللہ ایک دو دن میں بالکل تندرست اور توانا ہوجائے گا۔ ہم جانور بھی بیمار ہوجاتے ہیں تو اکثر یہی بوٹی تلاش کر کے کھالیتے ہیں۔ پھر شیر نے ایک درخت کے نیچے کھانے پینے کے سامان کی طرف لے جا کر کہا: ”اے نیک آدمی! یہ سامان اٹھالے۔“کسان کھانے پینے کا سامان کپڑے میں باندھ کر کاندھے پر اٹھا کر شیر کے ساتھ چلنے لگا۔ کچھ دور جا کر شیر نے چھوٹے چھوٹے پودوں کی طرف پنجے سے اشارے کرتے ہوئے کسان سے کہا: ”یہ ہے وہ پودا جو ہر بیماری میں اللہ کے حکم سے شفا دیتا ہے۔ غریب آدمی نے جلدی جلدی کچھ پودے توڑ کر سامان میں رکھ لیے۔شیر نے مشورہ دیا: ”یہ بوٹی تم اپنے دوست کو کسی پتھر سے کچل کر پانی سے کھلا دینا، انشاء اللہ کچھ ہی دیر میں تندرست ہوجائے گا۔“کسان نے شیر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا: ”اے اچھے شیر! تیرا بہت بہت شکریہ۔ اب مجھے اجازت چاہیے۔
میرا دوست میرا انتظار کررہا ہوگا۔“شیر نے کہا: ”اے بھائی! اتنی جلدی نہ کر مجھے کچھ اور بھی خدمت کرنے دے۔ کافی دنوں پہلے ایک شہزادہ اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ جنگل میں شکار کھیلنے آیا تھا۔ مگر چیتے اور ریچھ نے ان پر اچانک حملہ کردیا تھا۔ کچھ جان بچا کر بھاگ نکلے، مگر شہزادہ اور اس کا ایک ساتھی مارے گئے تھے۔ شہزادے کے گلے میں موتیوں کے ہار تھے۔ یہ ہار میں لے آیا اور اپنے غار میں ایک جگہ چھپا دیے تھے۔ یہ تم لے جاؤ اور بادشاہ کو دے دینا۔ کسان شیر سے رخصت ہو کر اپنے ٹھکانے پر آگیا۔ سنار کو اٹھا کر اسے بوٹی کچل کرپلادی۔ کچھ دیر میں سنار کا بخار ختم ہوگیا اور وہ بھلا چنگا نظر آنے لگا۔ کسان نے اسے جب تمام حالات بتائے اور شہزادے کے قیمتی جواہر کے ہار دکھائے تو سنار کے دل میں لالچ پیدا ہوگیا اور جواہرات چرانے کی ترکیبیں سوچنے لگا۔
کھانے پینے کا ذخیرہ مل چکا تھا۔ لہٰذا دونوں پھر شہر کی طرف چل پڑے۔ سنار کے دل میں لالچ تھا۔ جیسے ہی موقع ملا وہ جواہرات چرا کر بھاگ نکلا اور گھر کی راہ لی۔ادھر ملکہ بیٹے کے غم میں بیمار ہو کر موت اور زندگی کی کشمکش میں مبتلا تھی۔ بادشاہ کا اعلان تھا کہ جو کوئی ملکہ کا علاج کر کے اسے اچھا کرے گا، اسے آدھی سلطنت انعام دی جائے گی۔ ملکہ روز بروزموت کی طرف جارہی تھی۔ بڑے بڑے مشہور طبیب آرہے تھے، مگر کسی سے شفا نہیں ہورہی تھی۔ کسان بادشاہ کے محل پہنچ گیا اور سپاہیوں سے آنے کا مقصد بیان کیا تو وہ اسے بادشاہ کے پاس لے گئے۔بادشاہ نے اسے اوپر سے نیچے تک دیکھتے ہوئے کہا: ”اے شخص! یہاں کئی ملکوں کے معالج آئے ہیں تم تو طبیب بھی نہیں لگتے، کہو پھر کیسے علاج کروگے؟ ہم پہلے ہی شہزادے کی جدائی کے غم میں مبتلا ہیں۔کسان نے کہا: ”اللہ آپ کو اور ملکہ کو سلامت رکھے۔ بادشاہ سلامت! مایوس کیوں ہوتے ہیں۔ آپ مجھے ملکہ عالیہ کے پاس لے چلیں۔ ان شاء اللہ پہلی ہی خوراک سے ملکہ عالیہ تندرست ہونے لگیں گی۔“”اچھا یہ بات ہے تو میرے ساتھ آؤ۔“بادشاہ ملکہ کے پاس کسان کو لے کر آگیا۔ کسان نے جیب سے بوٹی نکال کر اسے پانی میں گھول کر جیسے ہی پلایا، ملکہ کے ہاتھ پاؤں میں جنبش ہونا شروع ہوگئی اور اس نے آنکھیں کھول دیں۔ دوسرے دن وہ بات چیت کرنے کے قابل ہوگئی۔ تمام خادم، کنیزیں اور خودبادشاہ بھی یہ دیکھ کر حیران رہ گئے۔ شام تک ملکہ جسمانی طور پر بالکل ٹھیک ہوگئی۔بادشاہ نے غریب اور نادار عوام کیلئے خزانے کے منہ کھول دیے۔ کسان کو آدھی سلطنت دینے کا بھی اعلان کردیا گیا۔کسان نے بادشاہ سے کہا: ”عالی جاہ! شہزادہ شکار کے دوران مارا گیا تھا۔ پھر اس نے شروع سے لے کر آخر تک سارے حالات کا بادشاہ سے ذکر کرتے ہوئے سنار کی بدعہدی اور دھوکے کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ سنار شہزادے کے قیمتی ہار چرا کر فرار ہوگیا ہے۔بادشاہ کو سنار کی دھوکے بازی پر سخت غصہ آیا۔ اس نے فوراً سپاہیوں کا ایک دستہ روانہ کرتے ہوئے سنار کی فوری گرفتاری کا حکم جاری کردیا اور گاؤں والوں کیلئے امدادی سامان اور مدد کیلئے کارندے علاقوں میں روانہ کردیے۔ سنار کو اس کے گھر سے گرفتار کرکے قید کردیا گیا اور کچھ عرصے بعد کسان کی ایماندار ی کو دیکھتے ہوئے کسان کو پنی سلطنت کا وارث قرار دے دیا۔جب بادشاہ اپنی طبعی موت مرا تو لوگوں نے کسان کو بادشاہ بنالیا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں